دوہڑے لطیفے پنجابی شاعری فن

Saturday, 12 February 2022

شوہر نے بے سری آواز میں گانا شُرُوع کیا تو بیوی نے فوراً کہا . . . 

میرے ابّا مرحوم جب گانا گاتے تھے تو اڑتے پرندے بھی گر جاتے تھے . 

شوہر نے جل کر کہا : کیوں ، کیا تمہارے ابّا مرحوم منہ میں کارتوس ڈال کر گاتے تھے ؟ 

پولیس انسپیکٹر : 

ہمیں اطلاع ملی ہے كے آپ كے گھر پر دھماکہ خیز مواد موجود ہے 


آدمی : 

جی اطلاع تو ٹھیک ہے لیکن ابھی وہ میکے گئی ہوئی ہے 

اور پھر لڑائی شروع ہوگئی؛

میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ بیگم میرے پاس آ کر بیٹھیں اور پیار سے پوچھنے لگیں کہ ٹی وی پہ کیا ہے؟

میں نے کہا؛

دھول مٹی۔

اور پھر لڑائی شروع ہوگئی


شادی کی سالگرہ پہ بیگم نے کہا کہ مجھے ایسی جگہ لے جائیں جہاں ہم مدتوں سے نہیں گئے۔

میں اسے اپنے والدین سے ملانے لے گیا۔

اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔


ایک رات بیگم نے فرمائش کی کہ مجھے مہنگی جگہ ڈنر کرائیں۔

میں پٹرول پمپ لے گیا۔

اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔


بیگم نیا سوٹ پہن کر آئینے میں دیکھ رہی تھیں۔ کہنے لگیں ماڈل پہ کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ میں تو کتنی موٹی، بھدی اور بے ڈول لگ رہی ہوں۔ پلیز میری تعریف میں کچھ کہیں تاکہ میرا موڈ خوشگوار ہو۔

میں نے کہا؛

تمہاری نظر بڑی تیز اور پرفیکٹ ہے۔

اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔


سبزی والے نے خراب سبزی دی۔ بیگم کہنے لگیں کہ جب پتا ہے کہ یہ کھلا دھوکہ دیتا ہے پھر بھی بار بار اسی کے پاس جاتے ہیں۔

میں نے کہا؛

تمہارے میکے بھی تو جاتا ہوں۔

اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔ 

آئینہ کے سامنے کھڑی بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا

*"کیا میں بہت موٹی لگ رہی ہوں"*

جھگڑا نہ ہو جائے یہ سوچ کر شوہر مسکرا کر بولا

*"ارے نہیں بالکل بھی نہیں"*

بیوی خوش ہوگئی اور رومانٹک ہوکر بولی

*"ٹھیک ہے تو پھر مجھے اپنی بانہوں میں اٹھا کر فریج تک لے چلو مجھے آئسکریم کھانی ہے"*

حالات کنٹرول کے باہر جاتا دیکھ پریشان شوہر بولا

*" جان من تم یہی رکو میں فریج اٹھا کر لے آتا ہوں"* 

بیگم : سنوجی سرکس دیکھنے چلیں؟


شوہر : نو . . . . . . . . . آئی ایم بزی . .


بیگم : اس میں اک لڑکی نے بنا کپڑوں کے شیر پہ سواری کی ہے . . . . 


شوہر : بہت ضدی ہو گئی ہو . . . .

 ہر بات ضد کرکے منوالیتی ہو . . . .

چلو بہت دن ہوئے شیر نہیں دیکھا۔


اس کے آگے کی کہانی .۔۔۔

۔


میاں بیوی پِھر سرکس دیکھنے گئے .

 شوہر نے سب سے آگے والی سیٹ کی ٹکٹ بھی لے لی

شیر والا شو آیا اور چلا گیا پر بنا کپڑوں کی لڑکی نہیں آئی . . .

 سرکس شو ختم ہو گیا . . .


شوہر : تم نے تو کہا تھا کی اک لڑکی بنا کپڑوں کے آئیگی ؟


بیگم : بنا کپڑوں كے شیر کہا تھا ، لڑکی نہیں . . . . . . . .

۔

۔

۔

۔


اگر آپ لوگوں کو بھی یقین نہیں تو پوسٹ کو دوبارہ 

پڑھ لیں۔🤔😎😊🤗 

شادی کے بعد

 *شادی کے بعد ایک سادہ آدمی اور اور اردو دان کی ملاقات ہوئی۔ دونوں بغل گیر ہوئے اور ایک دوسرے کی شادی شدہ زندگی کا حال پوچھنے لگے۔*


*" سناؤ! کیسا گزر رہا ہے لائف؟" سادہ آدمی نے پوچھا۔*


*اردو دان کا جواب:*

*" الحمد للہ سب فٹ ہے۔ آپس میں بہت انڈر سٹینڈنگ ہے۔ صُبح ہم دونوں مل کر ناشتہ بناتے ہیں،، پھر باتوں باتوں میں برتن دھو لیتے ہیں، پھر پیار پیار سے مل بانٹ کر کپڑے دھو لیتے ہیں۔*

*کبھی وہ ڪسی خاص ڈِش کی فرمائش کر دیتی ھے اور کبھی میں اپنی مرضی سے کچھ پکا لیتا ہوں،،*

*ماشا اللّہ میری بیوی بہت صفائی پسند ہے۔ بس اِسی وجہ سے گھر کی صفائی ستھرائی میری ذمہ داری ہے،،*


*اردو دان نے پوچھا:*

*"تم سناؤ ، تمہاری زندگی کیسی گزر رہی ہے؟"*


*سادہ آدمی : " او یارا،،،،، ذلت تو ہمارا بھی اتنا ہی ہو رہا ہے جتنا تمہارا.. لیکن ہمارا اردو اتنا مزے کا نہیں ہے ۔

آپریشن مریض اور ڈاکٹر

آپریشن کے بعد مریض کے رشتہ دار ڈاکٹر سے ،،،


*ڈاکٹر صاب مریض کو کھانے کے لئے کیا دیں ؟*


نرم غذا دیں۔


او کیہڑی؟


دلیا ، کھچڑی ڈبل روٹی بسکٹ پھل جوس وغیرہ۔


پھل کہیڑے۔۔۔۔۔سارے؟ "فروٹر" کھلا دیئے؟


ہاں دے دیں۔


پر ایہہ تے کھنگ کر سکدا اے جی؟


اچھا۔ نا دیں۔


نئیں ڈاکٹر صاحب جے ضروری اے تاں کھلا دیندے آں جی۔ پر روٹی توں پہلے دیئے یا بعد چے؟


او بھائی ابھی کھانا نہیں دینا۔


تو مریض کیا کھاوے۔ خوراک دا تے دس دیو۔


نرم غذا کھلائیں۔ دلیا کھچڑی پھل ڈبل روٹی جوس وغیرہ۔


گوشت کیہڑا کھلائیں؟


ابھی گوشت نہیں دینا۔


چھوٹا یا بڑا کوئی بھی نئیں دینا ؟ مرغی وی نئیں؟


نہیں مرغی بھی نا دیں ؟


تے مچھلی ڈاکٹر صاب؟


نہیں۔


چوچا یا بٹیر دے دیئے؟


نہیں بابا ابھی کوئی پکانے والی چیز نہیں دینی۔


دودھ تے پلا سکدے آں؟


ہاں دے دیں۔


کیہڑا؟

کچا ۔۔۔۔۔۔یا کا ڑھ کےَ؟


کا ڑھ کے۔


ٹھنڈا یا گرم؟


نیم گرم، کوسا کر کے دے دیں


کنّاں کوسا ؟


ہلکا کوسا ۔


انّی دیر میں دوسرا رشتے دار بندہ۔ ۔ ۔


چھڈ ۔۔ تجھے تو سمجھہ ہی نئی آندی۔ مینوں پچھن دے۔ ۔ ۔

جی ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔ *مریض نوں خوراک کیہڑی دیئے--- 

شوہر اور بیوی

میرے ہمسایہ جمیل صاحب نے ایک دن مجھ سے ایک سوال کیا۔ 

بھائی یہ بتاؤ۔ میرے ماں باپ کا ایک بچہ ہے۔ وہ نہ میرا بھائی ہے نہ بہن۔ بتاؤ وہ کون ہے؟

میں کافی دیر سوچتا رہا۔ آخر نفی میں جواب دیا۔ 

سوری جمیل صاحب میں نہیں جانتا۔

جمیل صاحب ہنس کر بولے۔ ارے اتنا آسان سوال نہیں بوجھ سکے۔ 

وہ میرا بھائی بھی نہیں اور بہن بھی نہیں تو لازمآ وہ میں ہی ہوں۔

مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ واقعی یہ تو بہت آسان سوال تھا۔ ویسے مجھے یہ سوال دلچسپ بھی لگا۔

گھر آیا تو یہی سوال میں نے اپنی بیگم سے کر دیا۔ 

کہ میرے ماں باپ کا ایک بچہ ہے۔ وہ نہ تو میرا بھائی ہے نہ ہی بہن۔ بتاؤ وہ کون ہے؟

بیگم کافی دیر سوچتی رہی۔ آخر اس نے بھی ہار مان لی۔

تو میں نے طنزیہ(بہت عرصے کے بعد طنز کرنے کا موقع ملا)ہنستے ہوئے کہا۔ ویسے تو تم مجھے باتوں میں پورا نہیں ہونے دیتی۔ اور اب ایک آسان سے سوال کا جواب نہیں دے سکیں۔ 

ارے وہ کوئی اور نہیں ہمارے ہمسائے جمیل صاحب ہیں۔

اس کے بعد آہستہ سے بیگم سے پوچھا!

تھوڑی شرمندگی تو ہوئی ہو گی؟ 

ویٹرنری ڈاکٹر اور کتا

الله بندے کو سزا کیوں دیتا هے؟ مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا که آج تک مطمئن هوں

همارے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے ایک پروفیسر تھے ____ میرے اُن سے اچھے مراسم تھے

یه یو نیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا _____

اک دفعه میں انکے دفتر گیا۔

مجھ سے کہنے لگے: اک مزے کی بات سناؤں تمهیں 

پچھلے هفتے کی بات هے

میں اپنے دفتر می‍ں بیٹھا تھا

اچانک اک غیر معمولی نمبر سے مجھے کال آئی:

"پندره منٹ کے اندر اندر اپنی سراونڈگنز کی کلیئرنس دیں!""________

ٹھیک پندره منٹ بعد پانچ بکتر بند گاڑیاں گھوم کے میرے آفس کے اطراف میں آکر رکیں

سول وردی میں ملبوس تقریباً حساس اداروں کے لوگ دفتر می‍ں آئے؛ ایک آفیسر آگے بڑھا _____

" """'"امریکه کی سفیر آئی هیں ____ ان کے کتے کو پرابلم هے اسکا علاج کریئے ___""""

تھوڑی دیر بعد اک فرنگی عورت اور اس کے ساتھ ایک عالی نسل کے کتے کے ساتھ داخل هوئی __

کہنے لگی : میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئله هے ؛ یه نافرمان هوگیا هے ____

اسے میں پاس بلاتی هوں یه دور بھاگ جاتا هے

خدارا کچھ کریے یه مجھے بہت عزیز هے اس کی بے عتنائی مجھ سے سهی نهیں جاتی

میں نے کتے کو غور سے دیکھا ___

پندره منٹ جائز لینے کے بعد میں نے کہا

میڈم!! یه کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں میں اسکا جائزه لے کے حل کرتا هوں

اس نے بے دلی سے حامی بھرلی _______

سب چلے گئے ____

میں نے کمدار کو آوز لگائی

فیضو! اسے بھینسوں والے بھانے میں باندھ کے آ۔۔۔

اور سن! اسے هر آدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لتر مار۔۔

هر آدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالنا ___ جب پانی پی لے تو پھر لتر مار______!!!

کمدار جٹ آدمی تھا۔ ساری رات کتے کے ساتھ لتر ٹریٹ منٹ کرتا رها ______

صبح میں پورا عمله لئے میرے آفس کے باهر سفیر زلف پریشاں لئے آفس میں آدھمکی

Sir! What about my pup ?

I said ___Hope your pup has missed you too .....

کمدار کتے کو لے آیا ____

جونهی کتا کمرے کے دروازے میں آیا

چھلانگ لگا کے سفیر کی گود میں آبیٹھا

لگا دم هلانے منه چاٹنے ________!!!

کتا مُڑ مڑ تشکر آمیز نگاهوں سے مجھے تکتا رها _____

میں گردن هلا هلا کے مسکراتا رها_____

سفیر کہنے لگی: سر آپ نے اسکے ساتھ کیا کیا که اچانک اسکا یه حال هے _____؟؟؟

میں نے کہا:

ریشم و اطلس، ایئر کنڈیشن روم، اعلی پائے کی خوراک کھا کھا کے یه خودکو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا ____ بس

اس کا یه خناس اُتارنے کے لیے اس کو ذرا سائیکو لو جیکل + فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی ____وه دےدی۔۔۔ ناؤ هی از اوكے

Now he is Okay)(اک عزیز دوست کی جانب سے) 

بیٹا اور ماں

ﺁﭨﮫ ﺳﺎﻟﮧ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﺌﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﭘﺮﺍﻧﯽ

ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﮞ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﺌﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﭽﯽ ﮨﮯ

ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ

ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻻ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﭨﺎﺋﻢ ﮬﻮﺗﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮬﻼﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﯽ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﺗﯽ

ﻧﺌﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﮔﺮ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﯽ ﮬﮯ ﺻﺒﺢ ﺳﮯ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮬﮯ

ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺳﺪﺍ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮐﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻠﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﮮ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻟﻤﺒﯽ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺳﺪﺍ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮐﮭﮯ۔ 

شوہر بیوی

بیوی::آفس سے واپسی پر سبزی لیتے آنا.اور نیلم سلام کہ رہی ہے.

#شوہر::کون نیلم؟؟🤔

#بیوی::کوئی نہیں بس اس لیۓ لکھا کہ تم میسج پڑھ لو..😂😂

#شوہر::وہی تو میں کہو نیلم تو میرے ساتھ ہے،تو تمہارے ساتھ کون ہے؟؟🤔

#بیوی!!کون نیلم کدھر ہو تم؟😠😠😠

#شوہر::میں بازار میں....😉

#بیوی!!اُدھر ہی رکو میں زرا آتی ہو،🏃👈🏃

10دس منٹ بعد #بیوی::کدھر ہو میں بازار میں ہو🤔

#شوہر::آفس ہی ہوں ،اب آگئ ہو تو سبزی لیتے جانا😂😂

                            # وڈی آئی نیلم😁😁😁


استاداں نال استادیاں 👫 

کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں

آپ نے یہ منقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر کے پیچھے کی داستان کا نہیں پتا ہوگا ۔

کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے،

ایک دن معملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،

(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتے تھے)

بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا

وائسرائے۔ نام؟

کھڑک سنگھ'

وائسرائے۔ تعلیم؟

کھڑک سنگھ۔ "تسی مینو جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"

وائسرائے ہنستے ہوئے 'سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے'؟

کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے " بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں"

وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جن نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔

اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا،،

کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی ۔

جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے ۔

۔

ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا 'مائی لاڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے'

جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔

عورت بولی- "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں رانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا"

جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا 'کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا'؟

دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا 'نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھایا تھا"

کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟

پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لاڈ رکھئے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟

جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟

'جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے' پولیس والے نے جواب دیا۔

تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیے ۔

فیصلے میں لکھا تھا ( ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ)

پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی ہر لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کامپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نا پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہیں ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔

اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر ہوجاۓ گی 

قصہ بادشاہ اور وزیر کا

 ایک بادشاہ تھا وہ جو بھی بات کرتا تو وزیر کہتا اسی میں کوی بہتری ھو گی۔

.ایک دفعہ بادشاہ کی انگلی کٹ گئی وزیر نے کہا اس میں اللہ کی کوی بہتری ھوگی بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ میری انگلی کٹ گئی ھےاور تم کہہ رھے ھو کہ اسمیں بھی اللہ کی کوی بہتری ھوگی۔

.بادشاہ نے وزیر کو جیل میں ڈال دیا تو پھر بھی وزیر نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی بہتری ھوگی بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔

.

ایک روز بادشاہ شکار کے لئے اپنے علاقے سے دور نکل گیا اور جنگل میں ایسی علاقے میں چلا گیاجہاں پر ایسے لوگ رھتے تھے کہ وہ لوگ سال میں ایک آدمی کی قربانی دیتے تھے انہوں نے باشاہ کو پکڑلیا جب اس کو زبح کرنے لگے تو انہوں نے دیکھا بادشاہ کی انگلی کٹی ھوی ھے انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا کہ ھم ایسے شخص کو قربان نہیں کرتے جو عیب دار ہو اس وجہ سے انہوں نے بادشاہ کو چھوڑ دیا۔

بادشاہ واپس آتا ھے وزیر سے بہت خوش ھوتا ھے اس کو بلاتا ھے اور کہتا ھے واقعی اللہ کے ھرکام اللہ کی کوی بہتری ھوتی ھے میری انگلی کٹی تھی میری جان بچ گئی جب میں نے تمہیں جیل میں ڈالا اس وقت بھی تم نے یہی کہا ۔

تمہارے جیل جانے میں کیا بہتری تھی؟

وزیر کہتا ھے اگر میں جیل میں نہ ھوتا آپ نے مجھے شکار پر لے کر جانا تھا آپ کی انگلی کٹی تھی آپ کو انہوں نے چھوڑ دینا تھا اور آپ کی جگہ انہوں نے مجھے زبح کر دینا تھا اب سمجھ آی کہ اللہ کے ھر کام میں بہتری ھوتی ھے ....

اے انسان!! تقدیر کے لکھے پر کبھی شکوہ نہ کیا کر،

تو اتنا عقل مند نہیں جو "رب" کے ارادے کو سمجھ سکے-

پوسٹ پسند آئے تو اپنے دوستوں سے شیئر ضرور کیا کریں۔۔۔

جزاک اللہ ۔۔

چالباز

ایک دور دراز گاؤں تھا جس میں سیدھے سادے لوگ تھے۔ 

   

 ایک دھوکے باز شخص نے اپنی خوبی کو استعمال کرتے ہوئے اُن پر حکومت کی۔

 

 اتفاقی طور پر ، ایک استاد اس گاؤں میں گیا 

 

 وہ دھوکے باز کی چالوں کو سمجھ گیا اور کہا کہ اگر وہ باز نا آیا تو سب لوگوں کو اُس کی سچائی بتائے گا 


دھوکے باز کو کوئی فرق نا پڑا 


اُستاد گاؤں کے لوگوں کے پاس گیا اور دھوکے باز کی چالوں سے خبردار کیا 


دھوکے باز کے کچھ پیروکاروں نے استاد کو جھوٹا قرار دیا اور بحث شروع کردی 


کافی دیر بحث کے بعد گاؤں کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں کے مابین مقابلہ کرایا جائے تا کہ پتا چلے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا 


مقررہ دن سب لوگ اکٹھے ہوئے کہ آخر کیا ہوگا 


چالباز نے استاد سے کہا کہ سانپ لکھو 


استاد نے زمین پر لکڑی سے لکھا : " سانپ "


اب چالباز نے وہی لکڑی پکڑی اور زمین پر سانپ کی شکل کھینچی 


اور لوگوں سے کہا :  


" تم سب فیصلہ کرو کہ اِن دونوں میں سے کونسا سانپ ہے "


اَن پڑھے لوگوں نے سانپ لفظ پر کوئی توجہ نہیں دی لیکن سب کو سانپ کی شکل معلوم تھی 


وہ سب استاد پر جھوٹا کہتے ہوئے چڑھ دوڑے اور اس کی پٹائی کرنے کے بعد اُسے گاؤں سے نکال دیا 


ہمارے معاشرے میں چالاک بازی لے جاتا ہے جبکہ سچے کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے 

پاکستانی سیلز مین

صرف مسکرائیے 😂😁😀


ایک نوجوان نے کراچی کی ایک کمپنی سے سیلزمینی کی جاب چھوڑی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں کینیڈا چلا گیا۔۔۔۔وہاں اس نے ایک بڑے ڈیپارٹمینل اسٹور میں سیلزمین کی پوسٹ پر ملازمت کیلئے اپلائی کیا۔۔۔۔اس اسٹور کا شمار دنیا کے چند بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا جہاں سے آپ سوئی سے جہاز تک سب کچھ خرید سکتے ہیں۔۔۔


اسٹور کے مالک نے انٹروویو کے دوران پوچھا

"آپکے ڈاکومنٹس کے مطابق آپ کا تعلق کسی ایشیائی ملک پاکستان سے ہے۔۔۔پہلے بھی کہیں سیلزمینی کی جاب کی "


"جی میں آٹھ سال کراچی پاکستان کی ایک کمپنی میں جاب کر چکا ہوں"


مالک کو یہ لڑکا پسند آیا

"دیکھو۔۔۔میں آپ کو جاب دے رہاہوں۔۔۔آپ نے اپنی کارگردگی سے میرے فیصلے کو درست ثابت کرنا ہے۔۔۔کل سے آ جاؤ۔۔۔۔گڈلک"


اگلے دن وہ پاکستانی لڑکا اپنی جاب پر پہنچا۔۔۔پہلا دن تھا۔۔۔طویل اور تھکا دینے والا دن۔۔۔بہرحال شام کے چھ بج گئے۔۔۔


مالک نے اسے اپنے دفتر میں بلایا

" ہاں بھئی۔۔اپ نے آج دن میں کتنی سیل ڈیل کیں؟"

"ایک" اس نے جواب دیا

"صرف ایک" مالک مایوسی سے بولا "دیکھو۔۔۔میرے سیلزمین دن میں کم سے کم 20 سے 30 ڈیلز کرتے ہیں۔۔۔آپ کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا ورنہ مشکل ہو جائیگی"

"بہتر سر"


مالک نے پھر پوچھا "اچھا۔۔۔یہ بتاؤ تمہاری یہ ڈیل کتنے ڈالر کی تھی؟"


"سر نو لاکھ پچاس ہزار سات سو نو ڈالر کی" وہ بولا


"کیا۔۔۔نو لاکھ ڈالر۔۔۔۔نو لاکھ ڈالر کی ایک ڈیل" مالک حیرت سے کھڑا ہو گیا تھا

"نو لاکھ نہیں۔۔۔۔سر۔۔۔نو لاکھ پچاس ہزار سات سو نو ڈالر"


"او خدا کے بندے! کیا بیچا" ملک چیخ ہی پڑا تھا


"سر! ایک آدمی آیا ۔پہلے میں نے اسے مچھلی پکڑنے والی چھوٹی، پھر درمیانی اور پھر سب سے بڑی رسی ROD بیچی۔۔۔پھر میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مچھلی کہاں پکڑنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ کہنے لگا کہ سمندر کے خاموش پانیوں میں۔۔۔تو میں نے اسے کہا کہ تب تو اسے ایک کشتی کی ضرورت ہو گی۔۔۔۔میں اسے کشتی والے پورشن میں لے گیا۔۔۔اس نے ایک بڑی کشتی خریدی۔۔۔پھر میں نے اس سے کہا کہ اس کی گاڑی یہ کشتی ساحل تک نہیں لے جا سکے گی۔۔۔۔میں اسے آٹوموبائل والے پورشن میں لے گیا۔۔۔۔جہاں اس نے ایک 4*4 بلیزر گاڑی خریدی۔۔۔۔پھر میں اسے کہا کہ "آپ کسی ہوٹل کے خشک کمرے میں ٹھہرینگے یا رونق بھرے جگمگاتے جاگتے ساحل پر" اسے میرا آئیڈیا پسند آیا۔۔۔اور ساحل پر رات گزارنے کیلئے ایک 6*6 کا خیمہ ، خیمہ ڈیپارٹمنٹ سے خریدا۔۔۔کھانے پینے کی چیزوں، میوزک سسٹم ، کچھ دیگر ضروری سامان کے علاوہ دو کارٹن بیئر کے خریدے۔۔۔"


مالک گویا پاگل ہونے کو تھا۔۔۔"یعنی۔۔۔ایک ہی گاہک کو تم نے یہ سب کچھ بیچا۔۔۔ایک ہی گاہک جو صرف مچھلی پکڑنے والی چھوٹی Rod خریدنے آیا تھا"


"جی نہیں۔۔۔۔وہ بوریت اور یکسانیت کی وجہ سے سر میں ہونے والے درد کو دور کرنے کیلیے گولی خریدنے آیا تھا۔۔۔میں نے اسے بتایا کہ گولی کی بجائے وہ مچھلی پکڑنے جیسی دلچسپ ایکٹویٹی کیوں شروع نہیں کر دیتا۔۔۔۔۔بس پھر اس نے ایک ڈالر کی دو گولیوں کی ڈیل کی بجائے ساڑھے نو لاکھ۔۔۔۔۔ "


مالک "او بھائی۔۔۔۔تو کہاں سے آیا ہے۔۔۔"


"سر یہ سب ہم نے عمران خان صاحب سے سیکھا ہے"


اس نے عوام کو موٹی ویٹ کیا کہ 65 کا پٹرول مہنگا ہے تمہیں 120 کا سستا والا پٹرول خریدنا چاہیے

🙏🙏🙏🙏🙏🙏🙏🙏 

Friday, 11 February 2022

یہ نظم آج سے 35 سال قبل حکیم سعید صاحب نے کہی تھی ،

جہاں تک کام چلتا ہو *غذا* سے

وہاں تک چاہیے بچنا *دوا* سے


اگر *خوں* کم بنے، *بلغم* زیادہ

تو کھا *گاجر، چنے ، شلغم* زیادہ


*جگر کے بل* پہ ہے انسان جیتا

اگر ضعف جگر ہے کھا *پپیتا*


*جگر* میں ہو اگر *گرمی* کا احساس

*مربّہ آملہ* کھا یا *انناس*


اگر ہوتی ہے *معدہ* میں گرانی

تو پی لی *سونف یا ادرک* کا پانی


تھکن سے ہوں اگر *عضلات ڈھیلے*

تو فوراََ *دودھ گرما گرم* پی لے


جو دکھتا ہو *گلا نزلے* کے مارے

تو کر *نمکین* پانی کے *غرارے*


اگر ہو درد سے *دانتوں* کے بے کل

تو انگلی سے *مسوڑوں* پر *نمک* مَل


جو *طاقت* میں *کمی* ہوتی ہو محسوس

تو *مصری کی ڈلی ملتان* کی چوس


شفا چاہیے اگر *کھانسی* سے جلدی

تو پی لے *دودھ میں تھوڑی سی ہلدی*


اگر *کانوں* میں تکلیف ہووے

تو *سرسوں* کا تیل پھائے سے نچوڑے


اگر *آنکھوں* میں پڑ جاتے ہوں *جالے*

تو *دکھنی مرچ گھی* کے ساتھ کھا لے


*تپ دق* سے اگر چاہیے رہائی

بدل پانی کے *گّنا چوس* بھائی


*دمہ* میں یہ غذا بے شک ہے اچھی

*کھٹائی* چھوڑ کھا دریا کی *مچھلی*


اگر تجھ کو لگے *جاڑے* میں سردی

تو استعمال کر *انڈے کی زردی*


جو *بد ہضمی* میں تو چاہے افاقہ

تو *دو اِک وقت* کا کر لے تو *فاقہ*

*لائف کو سپورٹ کریں*

 یہ پیغام پیاروں تک پہنچائیں


*جزاک اللّہ عزوجل. 

اگر آپکے حالات بگڑ جاۓ تو خوفزدہ نہ ہو

ایک بحری جہاز میں کافی بوجھ تھا سفر کے دوران طوفان کی وجہ سے ہچکولے کھانے لگا جہاز ڈوبنے کے قریب تھا ، لہذا اس کے کپتان نے تجویز پیش کی کہ جہاز پر بوجھ ہلکا کرنے اور زندہ رہنے کے لئے کچھ سامان کو سمندر میں پھینک دیا جائے۔

تو انہوں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک سوداگر کا سارا سامان چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے بہت ہوگا ،

جس تاجر کا سامان پھینکا جانا تھا اس نے اعتراض کیا کہ کیوں اسکا ہی سارا سامان پھینکا جائے اور تجویز پیش کی کہ سارے تاجروں کے سامان میں سے تھوڑا تھوڑا پھینکا جائے تا کہ نقصان تمام لوگوں میں تقسیم ہو اور نہ صرف ایک شخص متاثر ہو۔

تب باقی سارے تاجروں نے اس کے خلاف بغاوت کی ، اور چونکہ وہ ایک نیا اور کمزور سوداگر تھا ، اس لئے انہوں نے اس کے سامان کے ساتھ اسے سمندر میں پھینک دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔

لہروں نے سوداگر کے ساتھ لڑائی کی یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔

جب وہ بیدار ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ لہروں نے اسے کسی نامعلوم اور ویران جزیرے کے کنارے پھینک دیا ہے۔

سوداگر بہت مشکل سے اٹھا اور سانس لیا یہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گیا اور خدا سے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ وہ اسے اس تکلیف دہ صورتحال سے بچائے ..


کئی دن گزرے ، اس دوران تاجر نے درختوں کے پھل اور خرگوش کا شکار کر کے گزارا کیا

اور پانی قریبی ندی سے پیتا ... اور رات کی سردی اور دن کی گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے درخت کی لکڑی سے بنی ایک چھوٹی جھونپڑی میں سوتا۔

ایک دن ، جب تاجر اپنا کھانا بنا رہا تھا ، تیز آندھی چل رہی تھی اور اس کے ساتھ لکڑی کی جلتی ہوئی لاٹھی اٹھ جاتی ہے ، اور اس کی لاپرواہی میں اس کی جھونپڑی میں آگ لگ جاتی تھی ، لہذا اس نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔

لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ، کیوں کہ آگ نے پوری جھونپڑی کو اس کے ساتھ ہی بھسم کردیا

یہاں سوداگر چیخنے لگا:

"کیوں ، رب ..؟

مجھے غلط طریقے سے سمندر میں پھینک دیا گیا اور میرا سامان ضائع ہوگیا۔

اور اب تو یہ جھونپڑی بھی جو میرے گھر ہے جل گئی ہے

اور میرے پاس اس دنیا میں کچھ نہیں بچا ہے

اور میں اس جگہ پر اجنبی ہوں ..

یاﷲ یہ ساری آفتیں مجھ پر کیوں آتی ہیں ..


اور سوداگر غم سے بھوکا ہی رات کو سو گیا۔

لیکن صبح ایک "حیرت انگیز واقعہ"اس کا انتظار کر رہا تھا ... جب اسے جزیرے کے قریب پہنچنے والا ایک جہاز ملا اسے بچانے کے لئے ایک چھوٹی کشتی سے اتر رہا تھا ...

اور جب سوداگر جہاز پر سوار ہوا تو خوشی کی شدت سے یقین نہیں کر پا رہا تھا ، اور اس نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسے کیسے ڈھونڈا اور اس کا ٹھکانہ کیسے جانا؟

انہوں نے اس کا جواب دیا:

"ہم نے دھواں دیکھا ، لہذا ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص مدد کے لئے پکاررہا ہے ، لہذا ہم دیکھنے آئے"


اور جب اس نے اُن کو اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح اسے ناجائز طریقے سے سوداگروں کے جہاز سے پھینک دیا گیا

انہوں نے اسے بتایا "کہ سوداگروں کا جہاز منزل تک نہیں پہنچا

ڈاکوں نے اس پر چھاپہ مارا ، سب کو لوٹ لیا اور لوگوں کو مار ڈالا "۔

تو سوداگر روتے ہوئے سجدہ کرتا ہے اور کہتا ہے ، یاﷲ یاﷲ ، تمہارے سب کام اچھے ہیں۔

پاک ہے وہ رب " جس نے قتل سے بچایا اور اس کے لیے بھلائی کا انتخاب کیا"۔


اگر آپ کے حالات بگڑ جاتے ہیں تو خوفزدہ نہ ہوں ..

بس اتنا بھروسہ کریں کہ خدا ہر چیز میں حکمت رکھتا ہے

یہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا بہترین ...

اور جب آپ کی جھونپڑی جل جائے گی ...

جان لو کہ خدا آپ کے امور کا انتظام کر رہا ہے اور آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے. جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا بہتر کرتا ہے


_عربی_سے_ترجمہ_ 

اللہ کی حکمت۔

ایک بادشاہ کا اپنے وزیر کے ساتھ بہت گہرا یارانہ تھا وہ ہر جگہ ہر وقت اس وزیر کو اپنے ساتھ رکھتا مگر وہ وزیر کی ایک عادت سے بہت تنگ تھا کہ وہ ہر اچھے یا برے کام اور واقعے پہ کہتا تھا کہ اس میں بھی خدا کی کوی حکمت ہوگی۔ ایک دفعہ بادشاہ کی انگلی کٹ گئی تو وزیر نے کہا کہ اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہوگی بادشاہ کو یہ سن کہ بہت غصہ آیا کہ کہ میری انگلی کٹ گئی ہے اور اسے مذاق سوجھ رہا ہے کہ اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہوگی غصے میں آ کے بادشاہ نے وزیر کو قید خانے میں ڈال دیا۔ کچھ دنوں کے بعد بادشاہ جنگل میں شکار کھیلنے گیا اور ایک ایسے ظالم قبیلے کے ہاتھ چڑھ گیا جو ہر سال ایک انسان کو اپنے دیوتا کے آگے ذبح کرتے تھے وہ لوگ بادشاہ کو پکڑ کے اپنے سردار کے پاس لے گئے ۔ سردار نے بادشاہ کو دیوتا کے آگے ذبح کرنے کا حکم دے دیا جب ذبح کرنے لگے تو دیکھا کہ بادشاہ کی ایک انگلی کٹی ہوئی ہے تو اس قبیلے کے سردار نے یہ کہتے ہوئے بادشاہ کو چھوڑ دیا کہ ہم کسی ایسے انسان کی قربانی نہیں دیتے جس میں کوئی جسمانی عیب ہو اور تمہاری انگلی کٹی ہوئی ہے اس لیے تم اس قربانی کے قابل نہیں اور بادشاہ کو آزاد کردیا۔ بادشاہ کی جان میں جان آئی جب واپس آیا تو سیدھا قید خانے میں وزیر کے پاس گیا اور کہا کہ آج مجھے تمہاری بات سمجھ میں آئی ہے اب مجھے یہ بتاو کہ جب تمہیں قید خانے میں ڈالا جا رہا تھا تو تم نے کہا تھا کہ اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہوگی تو اس میں کیا حکمت تھی؟ وزیر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ ہر جگہ مجھے اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اگر مجھے قید خانے میں نہ ڈالتے تو یقینا شکار پہ بھی میں آپکے ساتھ ہی ہوتا اور اس قبیلے کے ہاتھ لگ جاتا اور آپ تو انگلی کا عیب ہونے کی وجہ سے بچ جاتے مگر مجھے وہ لوگ ذبح کر دیتے۔ یہ سن کے بادشاہ نے وزیر کو آزاد کرکے اپنے ساتھ رکھ لیا اور کہا کہ یقینا تمہاری آزادی میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہوگی۔❤

اللہ پاک جو کرتا ہے بہت اچھا کرتا ہے..آپ اس وقت جس حال میں بھی ہو اللہ پاک کا شکر ادا کیا کرو...کسی بھی نقصا ن پر اللہ سے شکوہ نہ کیا کرو ...البتہ اللہ سے دعا ضرور کیا کرو...🙏

بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے...اور اس دنیا میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں..

خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز

شوہر اپنی بیوی کو حد سے زیادہ کیسےپیار کر سکتا ہے؟

ان دنوں میں دبئی مشرف کے علاقہ میں ایک 35 سالہ عربی نوجوان کے فالج کا علاج کر رہا تھا- اس کی والدہ دوران تھراپی اکثر کمرے میں موجود ہوتی جو بیٹے سے عربی میں جب کہ میرے ساتھ انگلش میں بات کرتی (کیونکہ میں عربی بول نہیں سکتا تھا)- اس عربی عورت کے انگلش بولنے پر حیران تھا- دوسرے روز میری اس حیرانگی کا جمود اس نے خودہی توڑدیا- وہ انڈونیشین خاتون تھی اور 50 سال قبل دبئی کے عربی سے شادی کے بعد سے یہاں تھی- وہ اپنے شوہر کی دوسری بیوی تھی پہلی بیوی الگ رہائش پزیر تھی- میں 26 روز تک اس گھر علاج کےسلسلے میں جاتا رہا، اس گھر کا ماحول اور اس کے شوہر کا رویہ بڑھاپے میں بھی اس عورت کے ساتھ ایسا تھا جیسے کل ہی ان کی شادی ہوئی ہو- ایک دن ہمت کرکے میں نے اس خاتون سے اسکی خوشگوار زندگی کا راز پوچھ ہی لیا- یہ ساری گفتگو انگلش میں ہوئی جسے اپنی مادری زبان میں تحریر کر رہا ہوں:

 

میں نے ان خاتون سے پوچھا کہ ان کی پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟ 


کیا آپ کھانا بہت اچھا بناتی ہیں؟


کیا آپ کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟


یا دولت، پر آشائش زندگی ہے؟ 


یا شوہر کے ساتھ کوئی خاص طریقہ کا ازدواجی تعلق؟


یا 11 بچے اس کا سبب ہیں؟ 


خاتون نے میرے سوالوں کا بڑے تحمل اور مسکراتے ہوئے  جواب دیا :


پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی مہربانیوں کے بعد عورت کے اپنے  ہاتھ میں ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور وہ چاہے تو اس کے برعکس جہنم بھی بنا سکتی ہے- 


اس سلسلے میں دولت کا نام مت لیجیے، بہت ساری دولت مند عورتیں ایسی ہیں جن کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بیزار رہتا ہے - 


خوشحال شادی شدہ زندگی کا تعلق کسی خاص ازدواجی تعلق یا کثیر اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے دسیوں بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے- 


بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں،  دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے- 


 مجھے اس کے اس جواب پر بہت حیرت ہوئی-

میں نے پوچھا: پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے ؟ 


خاتون نے جواب دیا: جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی شوہر کا احترام شامل ہوتا ہے، میں خاموشی کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں- 


ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار شوہر اسے فوراً بھانپ لیتا ہے- 


 میں نے ضمنی سوال کیا: ایسے موقعے پر آپ ان کے پاس ہی رہتی ہیں یا پھراس وقت ان سے الگ ہو جاتیں ہیں؟ 


خاتون نے جواب دیا: نہیں، ایسا کرنا چاہیے کیونکہ شوہر یہ محسوس گا کہ آپ اس کو نظرانداز کر رہی ہیں اوراسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں- لہذا ایسے موقعے پر خاموش رہنا ہی بہتر ہوتا ہے چاہیے اور جب تک شوہر پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے- 


جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو بڑے ادب اور آرا.م سے پوچھتی ہوں کہ کیا آپ کی بات پوری ہو گئی، مجھے گھر کا فلاں کام کرنا ہے اور پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں-


کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے- میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں. 


میں نے کہا: پھر تو آپ بول چال بند کرنے کا رویہ اپناتی ہو گی اور ہفتہ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہو گی یا پھر اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہو گی؟


خاتون نے روایت سے ہٹ کر جواب دیا، نہیں محترم داکتور؛ 


زوجین کو اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے، یہ ایک دودھاری خنجر ہے، کیونکہ


جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.


میں نے پوچھا: پھر ایسے حالات میں آپ کیا کرتی ہیں؟ 


خاتون نے جواب دیا: میں دو تین گھنٹے بعد اپنےشوہر کے پاس ایک گلاس جوس، چائے یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں، یہ لیجیے، یہ خاص آپ کے لئے ہے-


حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے- 


پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں-


شوہر مجھ سے پوچھتے ہے کیا میں زیادہ بول گیا تھا؟ 


میں کہتی ہوں، نہیں؛ 


اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے. 


میں نے پوچھا: اور آپ اتنی آسانی سے مان جاتی ہیں؟ 


خاتون بولیں، جی بالکل، میں کوئی جاہل یا گنوار

تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ اور اعتماد ہے-


آپ چاہتے ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟ 


میں نے کہااور آپ کی عزت نفس (self respect) ؟ 


وہ بولیں: پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس میرے شوہر کے ساتھ ہے اگر میرا شوہر مجھ سے راضی ہے تبھی ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہوگی- 


دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، جب مرد و عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس؟ 


اس پوسٹ کو شیئر کریں اور ازدواجی زندگی کو مضبوط کریں-


ڈاکٹر اشفاق سائر، موٹیویشنل سپیکر اینڈ ٹرینر

مرغی اور قاضی

اﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ " بھائی ذرا اﺱ مرغی ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ دے ﺩﻭ "

ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﻣﺮﻏﯽ ﺭکھ ﮐﺮچلے ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬ ﮔﮭﻨٹے ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ "


ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯﺷﮩﺮ ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ پر آ گیا ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ"

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﯾﮧ مرغی ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ھﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ جو آپ کو دے سکوں" 

قاضی ﻧﮯ کہا کہ کوئی بات نہیں ، ﯾﮩﯽ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽھے "


ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ بھلا ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ھو گا ؟ مرغی تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ تھی پھر ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ سکتی ھے" ؟

قاضی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ- " ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ اسے غور سے ﺳﻨﻮ ! ﺑﺲ ﯾﮧ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺍﺱ کے مالک ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ تیری مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے - ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ خلاف مقدمہ لے کر ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ہی ﮔﺎ " 

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﺍﻟﻠﻪ سب کا ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ" اور مرغی قاضی کو پکڑا دی - 


قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ نکل ﮔﯿﺎ ﺗﻮ مرغی کا ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ دکاندار سے ﮐﮩﺎ کہ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ھے ؟

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " میں نے تو کاٹ دی تھی مگر ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے" 


ﻣﺮﻏﯽ ﻭالے نے حیران ھو کر پوچھا : بھلا وہ ﮐﯿﺴﮯ ؟ "ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮌ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺌﯽ ھے ؟ دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ھوئی اور پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی جس پر ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ قاضی کے پاس چلتے ھیں " اور چل پڑے - 


ﺩﻭﻧﻮﮞ نے ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ھﻮﺋﮯ ﺭاﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭھﮯ ہیں ، ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ھﮯ جبکہ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ - ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ آنکھ ﻣﯿﮟ جا ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ یہودی کی آنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ - ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﮯ کر ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ - ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﺩﻭ مقدے ﺑﻦ ﮔﺌﮯ - 


ﻟﻮﮒ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺐ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺍپنے آپ کو چھڑا ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ، ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ھو کر ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼڑھ ﮔﯿﺎ - ﻟﻮﮒ جب ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ لئے ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ تو ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ - 


ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ لیا ﺍﻭﺭ سب اس کو ﻟﮯ ﮐﺮ قاضی ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ - 


قاضی مرغی فروش ﮐﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ اسے ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ - 


ﺟﺐ قاضی ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ اس نے سر پکڑ لیا - اس کے بعد چند کتابوں کو الٹا پلٹا اور کہا کہ "ھم تینوں مقدمات کا یکے بعد دیگرے فیصلہ سناتے ھیں" ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ - 


قاضی نے پوچھا ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ دعوی ﮐﯿﺎ ھے ؟

ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ: ''جناب والا ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﭼﺮﺍﺋﯽ ھے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے'' - قاضی صاحب ! ﻣﺮﺩﮦ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟؟


قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﻪ اور اس کی قدرت ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟

ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ: ''ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ قاضی صاحب''

قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ بھلا کیا مشکل ھے''


ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ کا مالک خاموش ھو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا - 


قاضی: '' ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ ﻻﺅ '' - ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ عرض کیا کہ '' قاضی ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭی ھے ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ '' 


قاضی ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ: " ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ﻧﺼﻒ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ آنکھ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ آنکھ ﭘﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ " 

ﯾﮩﻮﺩﯼ: " بس ﺭھنے ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨوں" 


قاضی: " ﺗﯿﺴﺮﺍ مقدمہ بھی پیش کیا جائے" - 


ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ عرض کیا کہ " قاضی صاحب ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ " 


قاضی تھوڑی دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻻ: " ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭکہ تم لوگ ﺍسی ﻣﯿﻨﺎﺭ پر جاؤ ﺍﻭﺭ مدعی ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ مدعی علیہ (ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ) ﭘﺮ اسی طرح ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دے جس طرح مرغی فروش نے اس کے باپ پر چھلانگ لگائی تھی"

نوجوان نے کہا: " قاضی صاحب ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮ ﻣﺮﺟﺎﺅﮞ گا "


قاضی نے کہا " ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ، میرا کام عدل کرنا ھے - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ؟؟؟ 

نوجوان نے اپنا دعوی واپس لے لیا - 


**** نتیجہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ھے تو پھر قاضی بھی آپ کو بچانے کا ہر ھنر جانتا ھے - 


**** اُمید ہے نظامِ عدل وقت کے تنااﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ " بھائی ذرا اﺱ مرغی ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ دے ﺩﻭ "

ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﻣﺮﻏﯽ ﺭکھ ﮐﺮچلے ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬ ﮔﮭﻨٹے ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ "


ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯﺷﮩﺮ ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ پر آ گیا ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ"

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﯾﮧ مرغی ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ھﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ جو آپ کو دے سکوں" 

قاضی ﻧﮯ کہا کہ کوئی بات نہیں ، ﯾﮩﯽ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽھے "


ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ بھلا ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ھو گا ؟ مرغی تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ تھی پھر ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ سکتی ھے" ؟

قاضی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ- " ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ اسے غور سے ﺳﻨﻮ ! ﺑﺲ ﯾﮧ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺍﺱ کے مالک ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ تیری مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے - ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ خلاف مقدمہ لے کر ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ہی ﮔﺎ " 

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﺍﻟﻠﻪ سب کا ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ" اور مرغی قاضی کو پکڑا دی - 


قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ نکل ﮔﯿﺎ ﺗﻮ مرغی کا ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ دکاندار سے ﮐﮩﺎ کہ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ھے ؟

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " میں نے تو کاٹ دی تھی مگر ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے" 


ﻣﺮﻏﯽ ﻭالے نے حیران ھو کر پوچھا : بھلا وہ ﮐﯿﺴﮯ ؟ "ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮌ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺌﯽ ھے ؟ دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ھوئی اور پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی جس پر ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ قاضی کے پاس چلتے ھیں " اور چل پڑے - 


ﺩﻭﻧﻮﮞ نے ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ھﻮﺋﮯ ﺭاﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭھﮯ ہیں ، ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ھﮯ جبکہ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ - ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ آنکھ ﻣﯿﮟ جا ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ یہودی کی آنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ - ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﮯ کر ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ - ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﺩﻭ مقدے ﺑﻦ ﮔﺌﮯ - 


ﻟﻮﮒ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺐ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺍپنے آپ کو چھڑا ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ، ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ھو کر ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼڑھ ﮔﯿﺎ - ﻟﻮﮒ جب ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ لئے ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ تو ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ - 


ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ لیا ﺍﻭﺭ سب اس کو ﻟﮯ ﮐﺮ قاضی ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ - 


قاضی مرغی فروش ﮐﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ اسے ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ - 


ﺟﺐ قاضی ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ اس نے سر پکڑ لیا - اس کے بعد چند کتابوں کو الٹا پلٹا اور کہا کہ "ھم تینوں مقدمات کا یکے بعد دیگرے فیصلہ سناتے ھیں" ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ - 


قاضی نے پوچھا ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ دعوی ﮐﯿﺎ ھے ؟

ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ: ''جناب والا ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﭼﺮﺍﺋﯽ ھے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے'' - قاضی صاحب ! ﻣﺮﺩﮦ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟؟


قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﻪ اور اس کی قدرت ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟

ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ: ''ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ قاضی صاحب''

قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ بھلا کیا مشکل ھے''


ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ کا مالک خاموش ھو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا - 


قاضی: '' ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ ﻻﺅ '' - ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ عرض کیا کہ '' قاضی ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭی ھے ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ '' 


قاضی ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ: " ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ﻧﺼﻒ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ آنکھ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ آنکھ ﭘﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ " 

ﯾﮩﻮﺩﯼ: " بس ﺭھنے ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨوں" 


قاضی: " ﺗﯿﺴﺮﺍ مقدمہ بھی پیش کیا جائے" - 


ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ عرض کیا کہ " قاضی صاحب ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ " 


قاضی تھوڑی دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻻ: " ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭکہ تم لوگ ﺍسی ﻣﯿﻨﺎﺭ پر جاؤ ﺍﻭﺭ مدعی ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ مدعی علیہ (ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ) ﭘﺮ اسی طرح ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دے جس طرح مرغی فروش نے اس کے باپ پر چھلانگ لگائی تھی"

نوجوان نے کہا: " قاضی صاحب ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮ ﻣﺮﺟﺎﺅﮞ گا "


قاضی نے کہا " ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ، میرا کام عدل کرنا ھے - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ؟؟؟ 

نوجوان نے اپنا دعوی واپس لے لیا - 


**** نتیجہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ھے تو پھر قاضی بھی آپ کو بچانے کا ہر ھنر جانتا ھے - 


**** اُمید ہے نظامِ عدل وقت کے تناظر میں آپ اس کہانی کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے ؟.

.ظر میں آپ اس کہانی کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے ؟.

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں

ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،

قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔

(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)

بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،

اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا

جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.

چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،

اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"

بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،

اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.

مسئول کو بلایا گیا،

تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟

اس نے کہا،

جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے

جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.

بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،

مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.

اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،

چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،

اس نے کہا.

طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"

بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،

معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی،

چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.

بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"

اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،

بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.

ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.

کچھ وقت گزرا،

"مصاحب کو بلایا،"

"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان،

بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:

"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"

بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،

سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"

تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔

بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،

"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟

اس نے کہا،

"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،

لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں

"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "

کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔

عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں ۔

انٹرویو کا دلچسپ سوال

ﻣﻼﺯﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﮨﻢ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺗﮭﺎ :


ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﻓﺎﻧﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﺑﺲ ﺳﭩﺎﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺗﯿﻦ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﺲ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔


1۔ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﻤﺮﮒ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔


2۔ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔


3۔ ﺍﯾﮏ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻗﺖ ﮔﺬﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ۔


ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﺑﭩﮭﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ - ﺁﭖ ﮐﺲ ﮐﻮ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ .......ﮐﯿﻮﮞ؟


ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﻮ ﭘﺮﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﮭﺎ۔

ﮨﺮ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﻭﺟﻮﮨﺎﺕ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔


 ﻣﺜﻼ ﺁﭖ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻮﺍﺭ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻃﺒﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻧﮧ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﻤﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ - ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔


"ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ"۔


ﺁﭖ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻟﻔﭧ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﭽﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ - ﺁﭖ ﭘﺮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﻮﻗﻊ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﺁﭖ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﯿﮉﯾﻞ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻗﺖ ﮔﺬﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ - ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﻮﻗﻊ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔


ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﺴﮯ ﺩﺭﺟﻨﻮﮞ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻣﻊ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ۔


ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ: 

ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﺲ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ... 

سردار اور موسم سرما

فارسی سے ترجمہ 

_____________________________________________

 خزاں تھا ، لوگوں نے قبیلے کے نئے سردار سے پوچھا کہ آنے والا موسم سرما میں سردی ہوگی؟۔

   چونکہ نیا قائد جدید معاشرے کی نسل سے تھا ، اور اس نے علاقے کی پرانی روایتوں سے کچھ نہیں سیکھا تھا۔ 

    وہ آسمان کو دیکھ کر نہیں بتا سکتا تھا کہ موسم کیسے ہوں گے ۔

      چنانچہ احتیاط کے طور پر ، اس نے قبائلیوں کو بتایا کہ موسم سرما میں اچھی سردی ہوگی اور انہیں لکڑیاں جمع کرنا ہونگی۔ 

       کچھ دن بعد اُسے ایک خیال آیا۔ 

        اس نے کال سینٹر جاکر محکمہ موسمیات کو فون کیا 

        اور پوچھا: کیا اس موسم سرما میں سردی ہوگی؟  

        ماہر موسمیات نے جواب دیا: ایسا لگتا ہے کہ واقعی میں سردی ہو گی۔ 

         نیا سردار قبیلے میں واپس آیا اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ زیادہ لکڑیاں محفوظ کریں۔

           ایک ہفتہ بعد اس نے دوبارہ موسمیاتی مرکز سے پوچھا: کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے آگے ضرور سردی پڑے گی؟  

           ماہر نے جواب دیا: ہاں ، سردیوں میں بہت سردی ہوگی۔

             سردار قبیلہ میں واپس آیا

              اور قبائلیوں کو حکم دیا کہ وہ لکڑی کے ہر ٹکڑے کو جو انہوں نے دیکھا جمع کریں۔ 

              

 اگلے ہفتے اس نے محکمہ موسمیات سے ایک بار پھر پوچھا:

  "کیا آپ کو یقین ہے کہ اس موسم سرما میں بہت سردی ہوگی؟" 

   ماہر نے جواب دیا: "یقینی طور پر اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والی سردی تاریخی سردی ہوگی "

     قبیلے کے سردار نے پوچھا: آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہیں؟ 

      ماہر موسمیات نے جواب دیا:

       "کیونکہ علاقائی لوگ پاگلوں کی طرح لکڑیاں اکٹھا کررہے ہیں۔" 

لومڑی کے گُھٹنے

کہتے ہیں کہ ایک لومڑی ندی کے کنارے کھڑی تھی اُسے ندی کے دوسری طرف جانا تھا 

  ندی کے دوسرے طرف ایک اونٹ تھا 

  لومڑی نے اونٹ سے پوچھا کہ پانی کی گہرائی کتنی ہے ؟

  

  اونٹ نے جواب دیا : 

" گُھٹنوں تک " 

لومڑی ندی میں کود پڑی مگر پانی اُس کے سر سے بھی اوپر تھا 

وہ پانی میں غوطے کھانے لگی 

ندی میں ایک چٹان پر پاؤں پڑا تو وہ مشکل سے اس پر چڑھ گئی

جیسے ہی اس نے کچھ سانس لیا وہ اونٹ پر چیخی :

" تم نے تو کہا تھا کہ پانی گُھٹنوں تک ہے "


اونٹ نے کہا :

" ہاں میرے گُھٹنوں تک "


  جب آپ کسی سے اپنی زندگی کے معاملات کے بارے میں مشورہ کرتے ہیں تو ، وہ آپ کو اپنے تجربات کے مطابق جواب دیتا ہے   

  لہذا مشورہ کریں تو اپنی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے. 

تین دوستوں کا لطیفہ

ابوظہبی میں تین دوست جن میں ایک پاکستانی🇵🇰 ایک انڈین🇳🇪 اور ایک فلپائنی🇵🇭 اکٹھے رہتے تھے

ان تینوں کو ایک جرم میں بیس بیس کوڑوں کی سزا سنا دی گئی

جس دن سزا پر عمل درآمد ہونا تھا

اس دن وہاں کا کوئی قومی تہوار تھا


قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ سزا تو لازمی دی جائے گی لیکن ہمارے قومی تہوار کی وجہ سے آپ تینوں ایک ایک رعائت لے سکتے ہو

سب سے پہلے فلپائنی🇵🇭 سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو

اس نے کہا کہ کوڑے مارنے سے پہلے میری کمر پر ایک تکیہ باندھ دیا جائے

چنانچہ اس کی کمر پر تکیہ باندھ کر کوڑے لگانے شروع کر دئے گئے

پندرہ سولہ کوڑوں کے بعد تکیہ پھٹ گیا اور باقی کوڑے اسے اپنی کمر پر سہنے پڑے

اس کے بعد انڈین🇮🇳 کی باری آئی

جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے تکیے کی حالت دیکھنے کے بعد کہا کہ میری کمر پر دو تکیے باندھ دیں

چنانچہ اس کی کمر پر دو تکیے باندھ کر بیس کوڑے لگا دئے گئے

وہ بہت خوش ہوا کہ سزا پر عمل ہو گیا لیکن بغیر کسی تکلیف کے

جب پاکستان 🇵🇰کی باری آئی

تو قاضی نے کہا چونکہ تم ہمارے مسلم بھائی ہو اس لئے تمہیں دو رعائیتیں دی جاتی ہیں بولو کیا چاہتے ھو

پاکستانی🇵🇰 بولا خواچہ 

پہلی رعائت تو یہ دیں کہ مجھے بیس کی بجائے چالیس کوڑے مارے جائیں

قاضی اور دیگر لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسی رعائت ہے

بہر حال انہوں نے پوچھا کہ دوسری کیا رعائت چاہیئے 

پاکستانی بولا

میری کمر پر اس انڈین کو باندھ دیں....😂😂 

ذرا ھنس لو

 ایک ھوٹل کے باھر بورڈ پر لکھاتھا۔۔

کھانا آپ کھائے اور بل آپ کے پوتے ادا کرینگے۔۔


دو کنجوس لوگوں نے یہ جملے پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔

 اور ایک دوسرے سے  کہنے لگےارے یار  ابھی تو اپنی شادی بھی نہیں  تو پوتے کہا سے آئے گے ۔۔جو بل ادا کرے گے۔۔؟؟


چلو چل  کے کھانا جی بھر کے کھالیتے ہیں۔۔


ھوٹل کے اندر داخل ہوتے ہی  دوبارہ تسلی کی خاطر  چلتے ہوئے ایک  ویٹر سے پوچھا۔۔۔


کیا واقعہ بل ہمارے پوتے ادا کرینگے۔؟؟


ھوٹل کے ملازم۔۔۔۔ نے کہا جی سر بلکل آپ بےفکر ہوکر کھانا کھائے۔۔


جب کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو ویٹر بل لے کر آیا۔۔


بل دیکھ کر دونوں کنجوس  بڑھک اٹھے یہ کیا دوکھا ہیں اپنے تو باھر۔۔


ویٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا جی سر ہمنے بلکل صحیح لکھا

ہیں۔۔ 


پھر یہ بل کیو لے آئے ہو۔۔؟؟؟


یہ   بل تو  آپکے دادا کا ہے۔۔


ویٹر بل دیتے ہوئے بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔

20 روپے کا استعمال کیسے کیا جائے؟

2 انڈے لو انہیں 21 دن انکیوبیٹر میں رکھو ان میں سے بچے نکلیں گے انہیں 3 مہینے پالنا وہ 12 انڈے دیں گے ان میں سے 6 جوڑے چوزے نکلیں گے انہیں 3 مہینے پالنا وہ سب 12 ،12 انڈے دیں گے


تب تک تمہارے پاس جو پہلے جوڑے نے بہت سے انڈے دئیے ہوں گے انہیں بیچ کر کلہاڑا لینا جنگل میں جا کے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچنا، پھر لکڑیوں اور انڈوں سے جو پیسے ہوں گے


ان سے بھینس خریدنا 1 سال بعد وہ 1 بچہ دے گی تب تک ڈیڑھ سال گزر چکا ہو گا اور تمہاری مرغیوں کی تعداد، پہلے 3مہینے میں 2 مرغیوں سے 12 ہوگی ، دوسرے 3 مہینے میں 14 مرغیوں سے 168 ہو جائیں گی، 


تیسرے 3 مہینے میں 2016 ہو جاۓ گی، چوتھے 3 مہینے میں 24192 ہو جائے گی، پانچویں 3 مہینے میں 290192 ہو جائے گی ، اگر کوئی بیماری یا کوئی بھی وجہ سے 90،000 مرغیاں مر بھی جائیں


تو ان میں سے 1 لاکھ بیچ کر 3 بھینسیں لے لینا اور باقی 1 لاکھ مرغیوں کی افزائش نسل در نسل ہر تین مہینے بعد 12 گُنا بڑھتی جاۓ گی ۔پھر پانچ سال بعد تمہارے پاس اتنی رقم ہو گی کہ تم 10 نسوار کی فیکٹریاں خرید سکو ، 


پھر اگلے پانچ سال میں جو مرغیوں اور بھینسوں سے منافع ہوگا ان سے 2 کپڑے کے کارخانے بنا لینا اور جو نسوار کی فیکٹریوں سے منافع ہوگا اس سے 30 دکانیں خرید لینا ،


اگلے پانچ سال بعد جو نسوار کی فیکٹریوں سے منافع ہوگا اس سے 12 جرابوں کی فیکٹریاں کھول لینا اور جو مرغیوں سے منافع ہوگا اس سے کھاد کی 10 فیکٹریاں کھول لینا اور جو دکانوں سے منافع ہوگا اس سے 15 اینٹیں بنانے والے بھٹے کھول لینا ،


اور پھر 15 سال تک ان سب چیزوں کے منافع کی رقم بچا کر رکھنا اور اپنا ایک الگ ملک خرید لینا اور وہاں کا بادشاہ بن کر وزیر مجھے رکھ لینا کیوں کے مشورہ تو میں نے دیا ہے نہ بہت مہربانی ہوگی آپکی۔

Wednesday, 9 February 2022

شکر ادا کیجیے

 کہتے ہیں ﮨﺮﻗﻞ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺧﺎﺹ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﺳﮯ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍِﺱ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ. ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻓﺮﺝ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ؟

اﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺷﺘﺮ ﻣﺮﻍ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﮯ ﺟﻦ ﭘﻨﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﻨﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭﺍﮮ ﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗھے ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ؟

ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﺎﺭ ﻟﯿﮑﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﺮﺍﭨﮯ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ.. ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﻏﺮﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﮨﻮﮔﺎ؟

 

ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ. ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ گیزر ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﺗﻮ؟

ﺟﻨﺎﺏ ﺁﭖ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ. ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯿﮟ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﻻﮞ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ. ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﻌﺘﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ.

ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ، ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ. ﺧﺎﻟﻖ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ.

حکیم اور لڑکی کا قصہ

 دلچسپ و عجیب

کہتے ھیں کہ قدیم زمانے میں ایک رئیس کی بیٹی گھڑا سواری کے دوران گھوڑے سے نیچھے گر گئی اور اُس کے کولہے کی ہڈی اپنے بند سے جدا ھو گئی. لڑکی کے باپ نے بہت سے حکیموں سے علاج کروانے کی کوشش کی کہ ہڈی کو واپس اپنی جگہ پر بٹھائیں مگر مصیبت یہ تھی کہ لڑکی کسی حکیم کو اپنا جسم چھونے کی اجازت نہیں دیتی تھی.باپ نے بہت اصرار کیا کہ شریعت نے مجبوری میں اور علاج کے سلسلے میں اسکی اجازت دی ھے ،


لیکن بیٹی کسی طرح راضی نہیں ھو رھی تھی اور دن بہ دن کمزور ھوتی جا رھی تھی. آخر لوگوں نے مشورہ دیا کہ شہر سے باھر ایک بہت حاذق حکیم رھتے ھیں اُن سے مشورہ کر لیں…….. وہ شخص حکیم صاحب کے پاس گئے اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو حکیم صاحبتو حکیم صاحب نے کہا کہ ایک شرط پر میں آپ کی بیٹی کا کولہا ھاتھ لگائے بغیر واپس بٹھا سکتا ھوں. وہ شخص کہنے لگا کہ جو بھی شرط ھو وہ قبول کرنے پر آمادہ ھے. حکیم نے کہا کہ شرط یہ ھے کہ ایک بہت موٹی تازی گائے میرے لئے لا دو تو میں علاج کر دوں گا آپ کی بیٹی کا……..وہ شخص بہت بھاری قیمت پر شہر کی سب سے تنومند گائے خرید کر حکیم صاحب کے گھر لے گئے. حکیم صاحب نے کہا کہ آپ اپنی بیٹی کو پرسوں اپنے ساتھ لے آئیں، اُسی دن اللہ کے حکم سے اُس کا علاج کر دوں گا………. جب وہ شخص چلا گیا تو حکیم صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ


دو دنتک نہ تو گائے کو گھاس کا ایک تنکا کھلایا جائے اور نہ پانی کا ایک قطرہ پلایا جائے. شاگرد حیران ھوئے کہ اِتنی تنومند گائے دو دن میں بھوک اور پیاس سے مر نہ جائے. لیکن چونکہ استاد کا حکم تھا اس لئے تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا. دو دن تک گائے بھوک اور پیاس کی شدّت سے بہت کمزور ھو گئی. دوپہر کے وقت وعدے کے مطابق وہ شخص اپنی بیٹی کو چارپائی پر ڈال کر حکیم صاحب کے پاس لے آیا……… حکیم نے لڑکی کے والد سے کہا کہ اپنی بیٹی کو گائے کی پیٹھ پر بٹھا لیں. سب بہت حیران ھوئے لیکن حکم ماننے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا. لڑکی کو گائے کی پیٹھپر بٹھا دیا گیا. اب حکیم صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ


لڑکی کے دونوں پاؤں گائے کے پیٹ کے گرد رسّی سے باندھ دیں. یہ کام ھونے کے بعد حکیم صاحب نے شاگردوں سے کہا کہ اب گائے کے سامنے گھاس اور دوسری خوراک ڈال دو. گائے دو دن کی بھوکی پیاسی تھی. جلدی جلدی کھانے لگی. حکیم صاحب نے اُس کے سامنے پانی کی بڑی سی بالٹی میں بہت سا نمک ڈال کر رکھ دیا اور گائے تیزی سے پانی پینے لگی.پانی میں نمک کی آمیزش نے پیاس کی شدّت اور بڑھا دی تو گائےنے ایک ساتھ بہت سا پانی پی لیا…….. گھاس اور پانی نے گائے کا پیٹ پُھلانا شروع کر دیا اور لڑکی کی ٹانگیں پر دباؤ اتنا بڑھا کہ وہ چیخنے لگ گئی. اچانک کھڑاک کی آواز آئی اور لڑکی شدّتِ درد سے بے ھوش ھو گئی…… حکیم صاحب نے لڑکی کو گائے سے اُتروا کر اُس کے والد سے کہا کہ آپ کی بیٹی کے کولھے کی ھڈی اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئی ھے اور یہ گائے آج سے میری ھے. یہ کوئی اور نہیں حکیم بو علی سینا تھے جن کا نام بعد میں چہار دانگِ عالم میں مشہور ھو گیا….

پاکستانی ہار نہیں مانتے

امریکہ میں مائیکرو سافٹ نے "آئی ٹی ایکسپرٹ مینیجر برائے یورپ" کی ایک آسامی پر درخواستیں ‌مانگیں۔ تقریباً پانچ ہزار امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں۔ بل گیٹس اتنے امیدواروں کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اور انہیں ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں جمع کرکے ان سے مخاطب ہوا :

آپ سب کا بہت شکریہ۔ چونکہ یہ آسامی بہت ہی اہم اور ٹیکنیکل پوسٹ کے لیے ہے۔ لہذا آپ میں سے جو 'جاوا' جانتے ہیں، وہ موجود رہیں، باقی تمام حضرات سے معذرت، وہ جا سکتے ہیں۔

ایک پاکستانی بھی امیدواروں میں کھڑا تھا۔ اس نے سوچا مجھے جاوا تو نہیں آتا لیکن پھر بھی میں‌ اگر رک جاؤں‌ تو کیا حرج ہے۔۔۔!

چنانچہ وہ وہیں کھڑا رہا۔ 

جبکہ جاوا نہ جاننے والے ایک ہزار افراد ویاں سے چلے جاتے ہیں۔

بل گیٹس: ہماری آج کی مینیجر کی پوسٹ کے لیے مینجمنٹ کوالٹی بہت ضروری ہے۔ آپ میں سے وہ افراد جن کی ماتحتی میں‌ کم از کم سو افراد ہوں، موجود رہیں، باقی سب جا سکتے ہیں۔

پاکستانی نے پھر سوچا کہ میرے تو گھر والے میرے ماتحت نہیں۔ لیکن چلو، رک جاتا ہوں، ممکن ہے کوئی جُگاڑ لگ جائے۔

امیدواروں میں سے ‌مزید ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں۔

بل گیٹس: اس جاب کیلئے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی ڈگری لازمی ہے۔ صرف اس ڈگری والے رکیں باقیوں سے معذرت ۔

پاکستانی نے پھر سوچا کہ ڈگری وگری تو کوئی نہیں۔ مگر رک جانے میں کیا حرج ہے۔

ایک ہزار افراد مزید کم ہو گئے۔

بل گیٹس: ہمٰیں تجربہ کار مینجر کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس کم از کم پانچ سالہ تجربہ ہے وہ رک جائے۔ باقی جا سکتے ہیں۔۔۔

پاکستانی پھر سوچتا ہے کہ تجربہ تو کسی کام کا نہیں لیکن جانے سے بہتر ہے کہ رک ہی جاؤں، شاید چانس بن جائے۔

ایک ہزار مزید افراد گراؤنڈ سے چلے گئے۔

بل گیٹس: گڈ۔۔۔! اب صرف ایک ہزار مناسب افراد بچ گئے۔ امیدوار کیلیے ضروری ہے کہ اسے یورپ کی کئی زبانیں آتی ہوں

یہ سن کر آخری ہزار میں سے پانچ سو افراد اٹھ کر چلے گئے۔ پاکستانی اردو پنجابی کے سوا کچھ نہ جانتا تھا۔ لیکن بہرحال پھر رک گیا۔

بل گیٹس: گڈ، آپ تمام افراد بنیادی شرائط پر پورا اترے۔ اب آخری شرط۔۔۔ وہی امیدوار رکے جو روسی زبان پر عبور رکھتا ہو‌۔

یہ سن کر چار سو اٹھانوے افراد اٹھ کر چلے گئے۔ جبکہ ہمارا پاکستانی اور اسکے علاوہ ایک اور آدمی بچ جاتے ہیں۔

اب آخری دو افراد اور بل گیٹس گراؤنڈ میں موجود رہ گئے۔

بل گیٹس: بہت خوب۔۔۔! آپ دونوں ان پانچ ہزار افراد میں سے سب سے زیادہ قابل نکلے۔ ویری گڈ۔۔۔ اب آپ دونوں ایک دوسرے سے روسی زبان میں بات چیت کریں ۔ جو زیادہ صحیح روسی زبان گرامر کے مطابق بولے گا، وہ منتخب کر لیا جائے گا۔

پاکستانی نے دوسرے بندے کو تولتی ہوئی نظروں سے دیکھا اور سوچا کہ جُگاڑ لگاتا ہوں، اب منزل قریب ہے۔

وہ دوسرے آدمی سے مخاطب ہو کر پنجابی میں بولا:

"ہاں بھئی اُستاد، کی حال چال اے۔۔۔؟"

دوسرے آدمی نے حیران کُن نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا:

"شُکر مولا دا، تُوں سنا۔۔۔"

آدمی ، بچہ اور چوکلیٹ

ایک بچہ چوکولیٹ کھا رھاتھا تو آدمی نے کہا،،اتنے زیادہ چوکولیٹ کھانا اچھا نھیں ھوتا

بچے نے کہا،،،،میرے دادا جی 105 سال جئے تھے

آدمی،،،چوکولیٹ کھاتے تھے کیا وہ ؟؟

بچہ،،،،نہیں،وہ آپنے کام سے کام رکھتے تھے


نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا۔ بازار جانے سے پہلے اس نے گدھ...